
گذشتہ ہفتے 22؍ اپریل 2025 کو کشمیر کے سیاحتی مرکز پہلگام میں دہشت گردوں نے ملک کی مختلف ریاستوں کے28سیاحوں کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنایا۔نہایت ہی سفاکانہ طور پر اپنے اہل خاندان کی آنکھوں کے سامنے وحشیانہ طور پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ دہشت گردوں کے حملوں میں مرنے والوں میں تمام مرد احباب ہی ہیں اورکئی زخمی زیر علاج ہیں۔ کشمیر کے قدرتی نظاروں سے لطف اندوز ہونے گئے خاندان اپنے سربراہوں کی لاشوں کے ساتھ واپس اپنے گھروں پر لوٹے۔ملک بھر میں اس المناک واردات کے زیر اثر غم کا ماحول چھا گیا ۔اس دل دہلانے والے دل سوز حملے نے ممبئی دہشت گردحملوں کے بعد پورے ملک میں ایک بار پھر کئی سوالات کھڑے کیے ہیں۔ برسوں بعد کشمیر میں دوبارہ سیاحت کے لیے دروازے کھلے تھے ۔روزگار کے لیے سیاحت کشمیر کا اہم ذریعہ ہے۔پہلگام حملوں کے بعد دوبارہ کشمیر جانے کے آرزومند احبا ب کے لیے نئی تشویش کا آغاز ہوگیا ہے۔سکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر کشمیر میں 48
سیاحتی مراکز کو سیاحوں کے لیے بند کردیا گیا ہے۔

سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ سرینگر کے قریب مقبول عام سیاحتی مرکز پہلگام میں کس طرح کھلے عام دہشت گردوں نے سیاحوں کو اپنی دہشت کا نشانہ بنایا۔سکیورٹی یعنی حفاظتی اقدامات کہاں پیچھے رہ گئے۔ ایسا کیسے ہوا کہ دہشت گرد کو سکیورٹی فراموش کرکے اپنے انسانیت دشمن منصوبے میں کامیابی حاصل ہوئی۔پہلگام جیسے سیاحتی مرکز پر سکیورٹی کی غیرموجودگی بہت بڑی ناکامی ہے۔اگر بندوق راج چل نکلا اور پڑوسی ملک کی سرپرستی میں اس نوعیت کی دہشت گردی برصغیر میں ماحول مزید بگاڑ دے گی، جو ہوا اس پر بہت کچھ کہا جارہا ہے، کئی اقدامات کیے جارہے ہیں ، تفتیش کا سلسلہ جاری ہے۔سیاحت کی غرض سے کشمیر آنے والے عام شہریوں پر حملے کرکے دہشت گردوں نے نہ صرف کشمیر بلکہ پورے ملک میں ماحول بگاڑنے کی مذموم کوشش کی ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہی ہے۔ آزمائشوں کی ایسی مشکل گھڑی میں ملک کی سبھی سیاسی پارٹیاں ملک دشمن عناصر کے خلاف متحد ہیں ۔
وزیرداخلہ کی صدارت میں تمام سیاسی پارٹیوں کی پہلگام حملوں سے جڑے مختلف پہلوؤں پرجائزہ لینے جو خصوصی نشستوں کا اہتمام ہوتا رہا ہے ۔ان میں وزیراعظم کی عدم موجودگی نے بھی کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ بہار میں منعقد ہونے والے اسمبلی انتخابات کی ریلیوں میں وزیراعظم کی شرکت اور پہلگام معاملے کی جائزاتی نشستوں میں غیرموجودگی پر بہت کچھ کہااور لکھا جارہا ہے۔اس ضمن میں بار بار مرکزی حکومت کی جانب سے تنبیہ کرائی جاتی رہی ہے کہ تنقیدی نوعیت کے تبصرے جو پہلگام حملوں سے متعلق ہورہے ہیں ۔اس موضوع پر، جو سوالات اٹھائے جارہے ہیں اورحکومت سے جواب طلب کیے جارہے ہیں ۔ان امورپر حکومت کڑی نظر رکھے ہوئے ہے ۔بے باک رائے زنی پر پابندیاں لگائی جارہی ہیں۔اس طرح کے اقدامات سے ایک بارپھر یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ حکومت سے منصبی فرائض کی عدم ادائیگی سے متعلق کوئی کھل کر اپنا مطمح نظر پیش نہ کرے۔ہند پاک سرحدوں پر ایک بارپھر تناؤ کا ماحول گرم ہے۔بین السطور ان حالات کے پیش نظر ڈاکٹر راحتؔ اندوری کے وہ معنی خیز بول یاد آرہے ہیں
سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا؟
کچھ پتہ تو کرو چناؤ ہے کیا؟
خوف بکھرا ہے دونوں سمت میں
تیسری سمت کا دباؤ ہے کیا؟
پڑوسی ملک پاکستان کے وزیر دفاع کا یہ اعتراف کہ ان کا ملک دہشت گرد تنظیموں کی مدد ،تربیت اورمالی تائید کرتا رہا ہے۔پاکستان سے وابستہ لشکر طیبہ کی شاخ TRF دی ایسزسیٹنس فرنٹ یا کشمیر ریسزسیٹنس (مزاحمت) نے پہلگام حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔لشکر طیبہ یہ وہی دہشت گرد تنظیم ہے جس نے نومبر2008 میں تین روزہ ممبئی دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ کشمیر مسئلہ ایک متنازعہ معاملہ ہے ،جس کے باعث ہند وپاک سرحدوں پر تناؤ بنا رہتا ہے۔اسی کے باعث دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان امن اور رواداری متاثر ہوتی رہی ہے ۔ 2019 میں کشمیر کے پلوامہ حملوں پر بھی کافی سیاست مچی رہی۔بی جے پی نے ان حملوں میں پاکستان کی شمولیت کو اپنے انتخابات کے لیے بھرپور طورپر اس کا استعمال کیا تھا۔ عین ممکن ہے کہ پہلگام حملوں کے معاملے پر بھی سیاسی فائدہ بٹورنے کی کوششیں ہوں گی۔ کسی بھی ملک کی سکیورٹی اس کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔اورسرحدوں پر تعینات فوجی دستوں کی متحرک موجودگی کسی بھی نوعیت کی دراندازی روکنے اورسرحدوں پر تشویش کے تدارک کے لیے اقدامات ملک کی سلامتی کے لیے اہم ہوتے ہیں ۔قومی تفتیش ادارہ (نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی۔این آئی اے) مذکورہ دہشت گردانہ حملوں کا جائزہ لے رہا ہے ۔ اب جبکہ ہندو پاک کے درمیان تناؤ بڑھنے لگا ہے لشکر طیبہ کی شاخ TRF نے پہلگام مرحلوں میں اپنی شمولیت سے کھلے طورپر انکارکرتے کہا ہے کہ یہ ان کے ادارے کو بدنام کرنے کی سازش ہے ۔حکومت ہند نے اس معاملے پر ابھی تک قطعی طورپر کچھ کہا نہیں ہے۔ پاکستان نے پہلگام حملوں میں اپنی شمولیت کے الزامات کو ہر طرح سے مسترد کردیا ہے ۔ ہندوستان کی جانب سے سندھ علاقے سے پاکستان کو فراہم ہونے والے پانی کو روکنے کے اعلان کے ساتھ جنگ جیسے آثار دونوں ممالک کے درمیان دیکھنے میں آرہے ہیں۔ پہلگام میں دہشت گردانہ حملوں کی مذمت پورے ملک میں ہورہی ہے۔ہندوستانی مسلمانوں کی جانب سے ان حملوں پر غم وغصہ کا اظہار ہورہا ہے ۔ مگر چند فرقہ پرست اور موقع پر عناصر پہلگام حملوں کو ہندومسلم نظریہ سے دیکھ رہے ہیں، تاکہ نفرت کے ماحول کو پھر سے بھڑکایا جائے۔ بہرحال کشمیر میں جمہوریت کی بحالی کے بعد مقامی ریاستی حکومت کو کمزور کرنے اورسیاحوں پر حملوں کی آڑ میں کشمیر کو ایک بارپھر ملک سے الگ کرنے کی دہشت گردانہ کوششیں جیسی بھی رہی ہیں ۔اس کا خلاصہ آنے والے دنوں میں ہمارے سامنے آئے گا۔
azamshahid11786@gmail.com cell: 9986831777