
از: عبدالحلیم منصور
کرناٹک کے دسویں جماعت کے نتائج اس سال بھی وقت پر، جمعہ کے روز جاری کیے گئے، اور ہمیشہ کی طرح کچھ چہروں کی مسکراہٹ نے خبروں کی زینت پائی۔ کچھ نام شائع ہوئے، مبارک بادوں کے پیغامات گردش میں آئے، اور ٹاپ کرنے والے طلبہ کی تصویریں سوشل میڈیا پر شیئر کی گئیں۔ یہ لمحے بظاہر خوشی کے ہوتے ہیں، مگر ان کے پیچھے چھپی ہوئی وہ بے شمار کہانیاں جو کبھی میڈیا کے صفحے پر نہیں آتیں، نہ ہی وزراء کی زبان پر
وہ کہانیاں جن میں شکست، خاموشی، نااُمیدی اور مسلسل گرتے ہوئے خوابوں کا اندوہناک عکس چھپا ہوتا ہے — اور اگر یہ شکست کسی قوم کی اجتماعی تعلیمی حالت کا ترجمان ہو تو اس تلخ حقیقت کو لکھنا واجب ہو جاتا ہے۔اس سال بھی دسویں جماعت کے نتائج نے مسلم قوم کے تعلیمی زوال کی طرف صاف اشارہ دیا ہے۔ ریاست میں جن 22 طلبہ نے صد فیصد نمبرات حاصل کیے، ان میں صرف تین مسلم طلبہ شامل ہیں۔ ان میں سے صرف ایک اردو میڈیم کی طالبہ ہے، شگفتہ انجم، جنہوں نے شمالی کرناٹک کے ایک چھوٹے سے شہر، سرسی کے اردو ہائی اسکول سے امتحان دے کر 625 میں سے 625 نمبرات حاصل کیے۔ یہ کامیابی جتنی خوشی کا باعث ہے، اتنی ہی افسوس کا بھی کہ وہ واحد اردو اسکول سے آنے والی طالبہ ہے جس نے اس اعلیٰ مقام کو پایا۔ گویا تمام ریاست میں اردو میڈیم کی طرف سے اس عظیم کارنامے کی نمائندگی کرنے والی صرف ایک بیٹی ہے، جو باقی ہزاروں ناکام نگاہوں کے درمیان ایک جگمگاتا ہوا چراغ بن کر کھڑی ہے۔تین مسلم ٹاپرس کا شمار ریاست کے 22 مکمل نمبرات حاصل کرنے والوں میں ہے، جن میں ٹمکور کے محمد مستعار عادل ابن محمد منصور عادل ،اور وجے پور کے عقیل احمد نداف ابن نصیر علی پنجار بھی شامل ہیں ۔لیکن یہ تعداد اس وقت شرمندگی میں بدل جاتی ہے جب ریاست بھر کے ایک لاکھ سے زیادہ مسلم طلبہ میں سے محض 57 فیصد کامیاب ہو پاتے ہیں، جبکہ مسلم لڑکوں کی کامیابی کی شرح 47 فیصد سے بھی کم ہے۔ لڑکیاں کسی حد تک بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں، مگر اس میں بھی وسائل، سرپرستی اور سماجی رکاوٹوں کے باوجود ان کی ہمت کا دخل ہے، نہ کہ نظام کی مہربانی۔
اردو میڈیم کے نتائج ایک اور المیے کی کہانی سناتے ہیں۔ اس سال تقریباً اٹھارہ ہزار اردو میڈیم طلبہ نےایس ایس ایل سی امتحانات میں شرکت کی، جن میں سے صرف 46 فیصد کامیاب ہو سکے۔ ایک ایسا طبقہ جو زبان کے ساتھ ساتھ شناخت اور روایت کا بھی امین تھا، آج پستی کے ایسے دلدل میں پھنسا نظر آتا ہے جہاں نہ ریاستی حکومت کو کوئی فکر ہے، نہ ہی ملت کے قائدین کو کوئی سنجیدگی۔ اردو میڈیم کی زبوں حالی صرف زبان کی نہیں بلکہ ایک پوری تہذیب کے تعلیمی سقوط کی علامت ہے۔اگر ہم صرف نمبرات کی بحث کریں تو شاید یہ مضمون ایک اور سرکاری رپورٹ بن جائے، لیکن اس کے پیچھے جو کہانی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان بچوں کے خواب محدود ہوتے جا رہے ہیں، ان کے گھروں میں تعلیم کا چراغ بجھ رہا ہے، ان کے اسکول خالی ہو رہے ہیں، اور وہ زندگی کے ہر میدان میں پیچھے ہوتے جا رہے ہیں۔ تعلیم صرف روزگار کا ذریعہ نہیں، شعور، طاقت، شناخت اور مقام کی کنجی ہے۔ جس قوم کی نئی نسل تعلیم سے محروم ہو جائے، وہ صرف تعلیمی میدان میں نہیں، بلکہ سماجی، اقتصادی اور سیاسی میدان میں بھی صفحۂ حیات سے مٹتی جاتی ہے۔

یہ صورتِ حال ہمیں اس بنیادی سوال کی طرف لے جاتی ہے کہ کیا ہم اپنی نسلوں کو وہ راستہ دے رہے ہیں جو انہیں دنیا میں عزت، اختیار اور شعور دلا سکے؟ کیا ہماری قوم کے بچے کسی ڈاکٹر، انجینئر، آئی اے ایس افسر، ماہرِ تعلیم یا سائنس داں کے خواب دیکھ بھی پاتے ہیں؟ اگر وہ دیکھتے بھی ہیں تو کیا ہمارے تعلیمی نظام، اسکول، اساتذہ، والدین، اور مذہبی و سماجی رہنما ان خوابوں کی تکمیل کا سامان مہیا کر رہے ہیں؟ ہمیں ان سوالات پر صرف بحث نہیں، بلکہ عمل کرنا ہوگا۔ ہر وہ بچہ جو تعلیم سے دور ہے، ہمارے اجتماعی جرم کی زندہ علامت ہے۔اسی کے ساتھ ہمیں غور کرنا ہوگا کہ ریاستی و مرکزی سطح پر مسلمانوں کی نمائندگی تعلیمی و انتظامی اداروں میں کیوں نہایت کم ہے؟ جب تک ہماری موجودگی ہر شعبے میں—تعلیم، صحت، نظم و نسق، پولیس، عدلیہ، یونیورسٹیوں، میڈیا، اور ٹیکنالوجی وغیرہ میں نہیں ہوگی، تب تک ہم صرف احتجاج کرتے رہیں گے، اور فیصلے دوسروں کے ہاتھوں میں ہوتے رہیں گے۔ مسلمان آج بھی سرکاری ملازمتوں میں، اعلیٰ تعلیمی اداروں میں، فیصلہ ساز مجالس میں نہ ہونے کے برابر ہیں، اور اس کی بنیادی وجہ یہی تعلیمی کمزوری ہے۔دسویں جماعت کی یہ منزل صرف ایک امتحان نہیں، بلکہ ہر طالب علم کے لیے زندگی کا پہلا بڑا سنگِ میل ہے، جہاں سے اس کی آئندہ علمی، فکری اور عملی سمتوں کا تعین ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی طالب علم اس مرحلے میں کامیاب نہیں ہو پایا تو یہ ہرگز ناکامی نہیں بلکہ غور و فکر، خود احتسابی اور از سرِ نو منصوبہ بندی کا موقع ہے۔
ان طلبہ کے لیے جنہوں نے اس بار کامیابی حاصل نہیں کی، مایوسی کی کوئی گنجائش نہیں۔ ایس ایس ایل سی زندگی کا آخری امتحان نہیں، بلکہ ایک مرحلہ ہے۔ سپلیمنٹری امتحانات ان کے لیے ایک نئی شروعات، ایک نئی امید، اور اپنی غلطیوں سے سیکھنے کا بہترین موقع ہیں۔انہیں نہ صرف مایوسی سے بچنا چاہیے بلکہ پوری تیاری، نظم و ضبط، اور نئے حوصلے کے ساتھ اگلے مرحلے میں قدم رکھنا چاہیے۔ اس موقع پر والدین، اساتذہ اور اسکول انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے طلبہ کی حوصلہ افزائی کریں، ان کے ساتھ وقت گزاریں، ان کی کمزوریوں کو سمجھیں اور مناسب رہنمائی فراہم کریں۔اردو میڈیم میں کمزور نتائج جہاں ایک پہلو سے تشویش ناک ہیں، وہیں ہمیں اس حقیقت کا بھی سامنا کرنا ہوگا کہ کچھ اساتذہ نے بھی وقت کے تقاضوں کے مطابق خود کو نہ بدلا، نہ نئے تعلیمی ذرائع کو اپنایا۔ ان پر براہ راست الزام دھرنے کے بجائے، بہتر یہی ہے کہ ان کی تربیت و رہنمائی کا مستقل نظام قائم کیا جائے، اور اساتذہ خود بھی اپنی علمی سطح بلند کرنے کی کوشش کریں تاکہ وہ طلبہ کی عملی و فکری رہنمائی کر سکیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو صرف مدرسہ یا اسکول بھیجنے پر اکتفا نہ کریں، بلکہ ان کے لیے ایک ایسا تعلیمی ماحول پیدا کریں جس میں ان کی فطری صلاحیتیں پنپ سکیں۔
اردو اسکولوں کو زندہ رکھنے کے لیے صرف جذبات کافی نہیں، جدید تقاضوں کے مطابق تعلیمی معیار، نصاب کی تجدید، ڈیجیٹل سہولیات، قابل اساتذہ، اور مستحکم انتظامی ڈھانچہ مہیا کرنا ناگزیر ہے۔اسی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو اپنی نمائندگی بڑھانے کے لیے اسکالرشپ، تعلیمی ٹرسٹ، مفت کوچنگ سنٹرس، اور رہنمائی مراکز جیسے منصوبوں پر فوراً عمل شروع کرنا چاہیے۔ قوم کے مخیر حضرات، علمائے کرام، اساتذہ، اور صحافی طبقے کو مل بیٹھ کر ایک مستقل حکمتِ عملی وضع کرنی ہوگی، جو صرف وقتی شور شرابے تک محدود نہ ہو بلکہ نسلوں کی بنیاد رکھے۔ملت کے تعلیم یافتہ طبقے، اردو داں طبقے اور بااثر نمائندوں کو چاہیے کہ صرف تنقید پر اکتفا نہ کریں بلکہ عملی میدان میں اُتریں۔ ہر اردو اسکول کو جدید سہولیات، تجربہ کار اساتذہ، اور جدید تعلیمی مشوروں کی ضرورت ہے۔ اردو صرف ایک زبان نہیں، یہ قوم کی تہذیب، تاریخ اور تشخص کا حوالہ ہے۔ اگر ہم اردو میڈیم کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہ کر سکے، تو ہماری نئی نسل نہ اردو کی وارث بنے گی، نہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے گی۔یہ مضمون محض تنقید نہیں، بلکہ ایک پکار ہے—ایک اجتماعی سوچ کو جھنجھوڑنے کی کوشش ہے۔
یاد رکھیے، تعلیم صرف کامیابی کا ذریعہ نہیں، یہ شعور، عزت اور بقا کا نام ہے۔ اگر ہم آج اس میدان میں پسماندہ رہیں گے تو کل ہماری قوم صرف اعداد و شمار میں نظر آئے گی، حیثیت میں نہیں۔ ایک بیٹی کا مکمل نمبرات حاصل کرنا یقیناً فخر کی بات ہے، مگر باقی ہزاروں کی ناکامی ہمارا اجتماعی نوحہ ہے۔ اگر آج بھی ہم نے تعلیم کو اپنی اولین ترجیح نہ بنایا، تو آنے والے کل میں صرف آنسو، افسوس اور مزید گمشدگیاں ہمارا مقدر ہوں گی