
محمد اعظم شاہد
ہمارے ملک میں کل آبادی مختلف ذاتوں اور طبقات میں بٹی ہوئی ہے – ذات پات کی تفریقات پر قابو پانے آئینی مراعات کی روشنی میں حکومتوں کی جانب سے متعلقہ ذاتوں اور طبقات کی فلاح وبہبود کیلئے پالیسیاں اور منصوبے تشکیل پاتے رہے ہیں – متوسط اور نچلے آمدنی والے طبقات کو روزگار اور تعلیم میں ریزرویشن فراہم کرکے انہیں معاشی، تعلیمی اور سماجی طورپر ترقی کے قابل بنانے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں – ملک مجموعی اعتبار سے جتنا بھی ترقی کرلے مگر ذات پات کی بنیاد پر ہی تمام معاملات طے ہوتے ہیں – انتخابات میں سیٹوں (نشستوں) کی تقسیم، انتخابی حلقوں کی زمرہ بندی، حکومتوں میں وزارت سازی اورتمام سرکاری محکموں میں نمائندگی کیلئے بنیادی طورپر ذات پات کے اعداد وشمار ہی اہم مانے جاتے رہے ہیں- اکثر ملک میں دس سال میں ایک بار مردم شماری کروائی جاتی ہے جس کے اعدادوشمار کی بنیاد پر حکومت مختلف طبقات کی ترقی وخوشحالی کیلئے منصوبے بنایا کرتی رہی ہے -مگر مردم شماری کے روایتی اعدادوشمار میں آبادی کے ذات پات اور طبقات کی تفصیلات حاصل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی ہے – جبکہ ہر کنبہ کی آمدنی، تعلیمی لیاقت اور روزگار سے وابستگی ، پیشہ اور دیگر تفصیلات اکٹھا کی جاتی رہی ہیں- گذشتہ مردم شماری سال 2011 میں ہوئی تھی -2021 میں دس سال کے وقفے کے بعد مردم شماری ہونہ سکی، کیونکہ کورونا کی مہلک وباء کے باعث حالات سازگار نہ تھے -مرکزی حکومت نے حالیہ دنوں میں فیصلہ لیا ہے کہ سال 2025 میں مردم شماری کا آغاز ہوگا جو اگلے سال 2026 میں تکمیل کو پہنچے گا- گھرگھر جاکر تفصیلات اکٹھا کرنے کا دشوار اور مشقت طلب مرحلہ کیلئے کم از کم بتایا جاتا ہے کہ گیارہ مہینے درکار ہوتے ہیں -مگر ابھی تک مردم شماری کا آغاز نہیں ہوا ہے –

پچھلے کئی سالوں سے کانگریس کے قائد راہل گاندھی ملک میں قومی سطح پر ذات پات کے مردم شماری کی ضرورت پر مدلل طور پر بات کرتے رہے ہیں -مرکزی حکومت کی توجہ اس ضرورت کی جانب اندرون پارلیمان اور بیرون پارلیمان کئی بار انہوں نے دلوائی- مگر یہ کہہ کر مرکز ٹالتا رہا کہ موجودہ حالات میں اس کی کوئی اہمیت اور ضرورت نہیں ہے -راہل گاندھی نے کئی موقعوں پر اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ جب کانگریس مرکز میں اقتدار پر آئے گی تو وہ ذات پات کے سروے کو یقینی بنائیں گے، تاکہ ملک کی آبادی میں مختلف ذاتوں اور طبقات کے تناسب کے اعتبار سے ان کی فلاح وبہبود کیلئے متعلقہ منصوبے بنائے جائیں اورلاگو بھی کئے جائیں -کرناٹک میں جب کانگریس حکومت تھی 2015 میں وزیراعلیٰ سدارامیانے مختلف ذاتوں اور طبقات کے سماجی، تعلیمی اور معاشی سروے کیلئے احکامات جاری کئے تھے، مگر ریاست میں حکومت کی تبدیلی کے باعث سروے رپورٹ نہ منظورہوئی اور نہ ہی اس کی تفصیلات منظر عام پر آئیں -جب سال 2023 میں کانگریس کی قیادت میں اپنے ہم نوا سیاسی پارٹیوں کا متحدہ پلیٹ فارم ’’انڈیا الائنس‘‘ تشکیل پایا ، اس میں جنتادل (یو) بھی شامل رہا- بہار میں نتیش کمار (جے ڈی یو)، آر جے ڈی اور کانگریس کی حمایت سے حکومت قائم کی تھی – 2023 کے اوائل میں بہار میں ذات پات کے سروے کا آغاز ہوا اور سروے رپورٹ نومبر 2023 میں جاری کردی گئی -یہ اقدام کانگریس اور اس کے ہمنوا سیاسی پارٹیوں کیلئے بڑی کامیابی تھی -سروے کے اعدادوشمار کے مطابق آبادی میں دیگر پسماندہ طبقات کی تعداد 63.13 فیصد رہی، درج فہرست ذاتوں کا تناسب 19.65 فیصد رہا اور اعلیٰ ذاتوں کا تناسب جو پہلے 20 فیصد ماناجاتا رہا وہ محض 15.52 فیصد پر آکر رُکا-
اس طرح بہار حکومت نے اپنی تخصیص (ریزرویشن) پالیسی مرتب کی اور مختلف ذاتوں اورطبقات بشمول مسلمانوں کے لئے مراعات (ریزرویشن) جاری کئے- کرناٹک میں کانگریس دوبارہ جب 2023 میں برسراقتدار آئی تو ذات پات سروے رپورٹ کی منظوری اور اعدادوشمار منظرعام پر لانے کا مطالبہ زور پکڑتا رہا- بالآخر سروے کے دس سال بعد 2025 میں رپورٹ ریاستی کابینہ میں منظورہوئی اور اعدادوشمار جاری کئے گئے – ریاست میں آبادی کے تناسب سے خود کو طاقتور اور سیاسی طورپر فیصلہ کن رول ادا کرنے کا دعویٰ کرنے والے وکلیگا اور لنگایت فرقے نے اعدادوشمار میں اپنا کم ہوتا تناسب دیکھ کر سروے رپورٹ پر اعتراضات جتانے شروع کئے- سروے کے طریقۂ کار کو غیرسائنسی (غیرمنطقی) کہا جانے لگا ہے – سروے رپورٹ کے مطابق دیگر پسماندہ طبقات جن میں مسلمان بھی شامل ہیں، کی آبادی کے تناسب سے تعداد 69.6 فیصد سامنے آئی ہے – درج فہرست ذاتوں سے (ایس ٹی) سے وابستہ احباب کا تناسب 18.27 فیصد اور درج فہرست قبائل (ایس سی) کا تناسب 7.15 فیصد بتایا گیا ہے – وکلیگا اور لنگایت طبقہ کا تناسب 26 فیصد سے کم واضح ہوا ہے -وکلیگاؤں کا تناسب 12.2 فیصد اور ویراشائیوالنگایتوں کی تعداد 13.6 فیصد بتائی گئی ہے -کرناٹک میں ذات پات کے اعدادوشمار کے مطابق تخصیص (ریزرویشن) کا معاملہ ابھی قطعیت سے ہمکنار نہیں ہوا ہے – اعلیٰ ذات کے طبقات وکلیگا اورلنگایتوں کے قائدین جو حکمران کانگریس میں ہیں اور وہ جو اپوزیشن میں ہیں ، ان دونوں کی جانب سے مخالفت کا سلسلہ جاری ہے -اس دوران 5 مئی سے درج فہرست ذاتوں (SC) کے سماجی معاشی تعلیمی صورتحال کا جائزہ لینے سروے کا آغاز ہوگیا ہے، تاکہ مجوزہ نئی ریزرویشن پالیسی میں مذکورہ ذات کے لوگوں کیلئے ریزرویشن کو نئے طورپر جاری کیا جائے – تلنگانہ میں کانگریس حکومت نے سال 2024 کے اواخر میں ذات پات کروایا اورفروری 2025 میں اعدادوشمار کو سرکاری طورپر جاری کروایا – دیگر پسماندہ طبقات کا تناسب 56.33 فیصد درج فہرست ذاتوں اورقبائل کی تعداد 17.43 فیصد اور 10.45 فیصد بتائی گئی ہے -مسلمانوں کی آبادی 13 فیصد کے آس پاس بتائی جارہی ہے – تلنگانہ میں بھی اپوزیشن پارٹیوں کی جانب سے اعتراضات جتائے جاتے رہے ہیں -مگر باوجود اس کے تلنگانہ میں سپریم کورٹ کے رہنما ہدایات کے مطابق درج فہرست ذاتوں اورقبائل کیلئے مربوط ریزرویشن پالیسی مرتب کی گئی ہے –
مودی حکومت مستقل طورپر ذات پات کے سروے کو ذات پات کی سیاست سے جوڑتی رہی ہے – ریزرویشن کی بنیاد پر پچھڑے لوگوں کی فلاح وترقی کے نام پر ووٹ کی سیاست کا الزام لگایا جاتا رہا ہے -مگر ذات پات کے سروے سے انکار کرنے والی حکومت نے حیرت انگیز طورپر پچھلے ہفتے 30؍اپریل کو اپنی کابینہ میٹنگ میں یہ فیصلہ لیا ہے کہ جو مجوزہ مردم شماری سال 2025 میں شروع ہونے جارہا ہے اس میں ایک ’’زمرہ‘‘ ذات پات کا بھی رکھا جائے گا- جس کے ذریعہ قومی سطح پر ملک میں مختلف ذات کے افراد کے اعدادوشمار بھی حاصل ہوجائیں گے – مختلف پیشہ ورانہ تفصیلات، جائیداد ومکان کی اہلیت، آمدنی، کنبہ کی تفصیلات ،تعلیمی لیاقت، روزگار کی تفصیلات وغیرہ امور پر معلومات مردم شماری کے ذریعہ حاصل کی جاتی رہی ہیں – مودی حکومت کہہ رہی ہے کہ وہ مردم شماری میں ذات پات کی تفصیلات حاصل کرکے حقیقی معنوں میں وہ ترقیاتی منصوبے بنائے گی- اوران کا اعلان کہ مردم شماری میں ذات پات کی تفصیلات کا بھی اندراج ہوگا- اس میں کسی بھی طرح کی سیاست نہیں ہے – اب جب کہ کئی ریاستوں میں اسمبلی انتخابات عنقریب میں ہونے ہیں -اس مرحلہ پر مودی حکومت کا یہ اعلان سیاست ہے یا نہیں ،سمجھنے والے سمجھتے ہیں اور جاننے والے جانتے بھی ہیں-