
مسلم لڑکیوں کے مدرسے میں پیش آنے والا حالیہ واقعہ نہایت افسوسناک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عبرت آموز پیغام بھی پیش کرتا ہے۔ یہ سانحہ نہ صرف ادارے بلکہ پوری معاشرت اور دینی درسگاہوں کو اپنی ذمہ داریوں پر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ والدین اپنے بچوں کو اس امید سے مدارس میں داخل کراتے ہیں کہ وہ ایک محفوظ، پرورش بخش اور اخلاقی اقدار سے لیس ماحول میں دینی تعلیم حاصل کریں گے، مگر موجودہ واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے اختیار کیے جانے والے طریقہ کار انتہائی سخت اور غیر مناسب ہیں۔ اس واقعے نے ادارے کی ساکھ کو مجروح کرنے کے ساتھ ساتھ پورے معاشرے میں یہ سوال بھی اٹھا دیا ہے کہ کیا ہمیں اپنے نظامِ تعلیم و تربیت میں بنیادی اصلاحات اور اندرونی احتساب کو لانا چاہیے؟
بنگلور کے ایک مسلم اکثریتی علاقے تھنی سندرا میں واقع جامعہ عائشہ صدیقہ للبنات میں
ایک نابالغ طالبہ کے خلاف جسمانی و ذہنی تشدد کے سنگین الزامات سامنے آئے ہیں، جن میں مدرسے کے مہتمم کے نامحرم فرزند کی کارروائی نے شرعی حدود کی پامالی کو بے نقاب کر دیا ہے۔ سی سی ٹی وی فوٹیج سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایک 11 سالی بچی نے ایک معمولی سی غلطی، یعنی چاول گرادینے، کی بنا پر شدید سزا کا سامنا کیا۔ اسی دوران، اسی عمر کے دیگر بچوں کو اپنی سہیلیوں کے ساتھ آزادانہ بات چیت، کھیل کود اور معمولی شور مچانے کے حق سے محروم کر دیا گیا، جو کہ بچوں کی معصومیت اور قدرتی حرکات کو محدود کر کے ان کی ذہنی و جسمانی نشوونما پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔
موجودہ حالات نے ادارے کی اندرونی خامیوں اور ناقص تربیتی نظام کو بے نقاب کر دیا ہے۔ ماضی میں بھی بدنظمی اور زیادتی کے الزامات کے بعد چند سال قبل ادارے کو دوسرے علاقے سے یہاں منتقل کیا گیا تھا، اس سے مسئلے کا حل ممکن نہ ہو سکا۔ سخت سزائیں، جیسے کہ بچوں کو معمولی غلطی پر شدید سزا دینا یا ان پر جسمانی اذیت کرنا، نہ صرف ان کی جسمانی حفاظت کو نقصان پہنچاتی ہیں بلکہ ان کے اعتماد اور خود اعتمادی کو بھی شدید مجروح کرتی ہیں۔ ماہرین تعلیم اور نفسیات کی رائے ہے کہ مثبت تربیتی طریقہ کار اور محبت بھرا ماحول بچوں کی نشوونما اور شخصیت کی تعمیر میں بہترین کردار ادا کرتے ہیں۔ اس معاملے پر مہتمم کے 19سالہ فرزند کو پولیس نے گرفتار بھی کرلیا ہے۔
مدارس کے منتظمین کی اولین ذمہ داری یہ ہے کہ وہ شرعی اور قانونی دونوں تقاضوں کا خیال رکھتے ہوئے اپنے ضوابط میں مناسب تبدیلیاں لائیں۔ کسی بھی نامحرم فرد کو، چاہے وہ طالبہ کا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو، ادارے میں داخلے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ افسوس کی بات ہے کہ موجودہ حالات میں مہتمم کے نامحرم فرزند کے ذریعے طالبات پر تشدد و زیادتی کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں، جو اخلاقی اعتبار سے ناقابل قبول اور شرعی اصولوں کے منافی ہیں۔اس پورے معاملے میں میڈیا کا کردار بھی نہایت حساس اور ذمہ دارانہ ہونا چاہیے تھا ۔ مگر کچھ ذرائع نے اس واقعے کو سنسنی خیزی کے انداز میں پیش کر کے نہ صرف ادارے بلکہ پوری قوم اور دینی درسگاہوں کو مشکوک بنانے کی کوشش کی ہے، جس سے معاشرتی ہم آہنگی اور عوام کا اعتماد شدید متاثر ہوتا ہے۔ ایک ذمہ دار میڈیا کو چاہیے کہ وہ سی سی ٹی وی فوٹیج اور دستاویزی شواہد کی بنیاد پر حقائق کو بے نقاب کرے اور اصلاحاتی اقدامات کی ضرورت کو اجاگر کرے، تاکہ نہ صرف موجودہ واقعات کا ازالہ ہو بلکہ مستقبل میں ایسے سانحات سے بچاؤ ممکن ہو سکے۔
یہ واقعہ درسگاہوں کے لیے ایک عبرت کا پیغام ہے کہ نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے سخت اور غیر متناسب سزاؤں کے بجائے بچوں کی معصومیت اور قدرتی حرکات کا احترام کرتے ہوئے ایک محفوظ، پرورش بخش اور مثبت ماحول فراہم کیا جائے۔ مدارس کے منتظمین کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ شرعی حدود اور قانونی تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے ادارے کے ضوابط کو بہتر بنائیں اور کسی بھی نامحرم فرد کے داخلے پر سختی سے پابندی عائد کریں۔ مزید برآں، والدین اور مقامی کمیونٹی کو بھی چاہیے کہ وہ باقاعدگی سے اداروں کا معائنہ کریں اور ایسے واقعات کے خلاف فوری مگر مدبرانہ ردعمل ظاہر کریں تاکہ اصلاحاتی اقدامات کا نفاذ یقینی بنایا جا سکے۔
اس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمارے نظامِ تعلیم و تربیت کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنا بے حد ضروری ہے۔ بچوں کی تربیت میں محبت، ہمدردی اور مناسب رہنمائی کو اولین ترجیح دی جانی چاہیے، تاکہ نہ صرف موجودہ بلکہ آنے والی نسلیں بھی ایک محفوظ، پرامن اور مثبت ماحول میں تعلیم حاصل کر سکیں۔ اجتماعی کوششوں، قانونی تقاضوں اور ذمہ دار میڈیا رپورٹنگ کے ذریعے ہی ہم ایک مثبت اور منصفانہ معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔
یہ واضح ہے کہ اگر ہم اپنی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے نہ لیں تو ایک فرد کی غلطی کی سزا پوری قوم اور درسگاہوں کی بدنامی کے طور پر ہم سب کو بھگتنی پڑے گی۔ اس لیے وقت آ گیا ہے کہ ہم نہ صرف انتظامی اور قانونی سطح پر بلکہ سماجی سطح پر بھی ایسے اصلاحی اقدامات اپنائیں جو بچوں کی معصومیت کا تحفظ کریں اور دینی درسگاہوں کو ایک مثبت، محفوظ اور ذمہ دار ادارے کے طور پر برقرار رکھیں۔ یہ واقعہ ایک بار پھر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اصلاحات اور احتساب کے بغیر نہ تو نظم و ضبط برقرار رہ سکتا ہے اور نہ ہی معاشرتی ہم آہنگی اور عوام کا اعتماد قائم رہ سکتا ہے۔
آخر میں، یہ واقعہ ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ ہمیں اپنے نظامِ تعلیم اور تربیت کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ بچوں کی تربیت میں نرم مزاجی، محبت اور ہمدردی کو بنیادی اصول بنانا ہوگا؛ سخت گیر رویوں اور غیر ضروری پابندیوں کے بجائے ایک مثبت تعلیمی ماحول فراہم کرنا ہوگا، تاکہ ہمارے بچے نہ صرف دینی تعلیمات سے آراستہ ہوں بلکہ ان کی شخصیت کی نشوونما بھی مثبت انداز میں ہو۔ صرف اسی طرح ہم ایک محفوظ، ذمہ دار اور منصفانہ معاشرہ تشکیل دے سکیں گے، جہاں ہر فرد کو اس کے حقوق مل سکیں اور اصلاحات کی بنیاد پر نظام میں بہتری لائی جا سکے۔ ایسے میں بچوں کے حقوق کا تحفظ اور ان کے محفوظ مستقبل کی تشکیل کے لیے ہمیں مل کر کام کرنا ہوگا، تاکہ ہم ایک مثبت، قانونی اور ذمہ دار تعلیمی نظام قائم کر سکیں۔
“خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے”
— علامہ اقبال
مدارس اسلامیہ صدیوں سے علم و اخلاق کے مراکز رہے ہیں، جہاں دینی علوم کے ساتھ ساتھ طلبہ کی روحانی اور اخلاقی تربیت بھی کی جاتی ہے۔ مگر حالیہ دنوں میں بعض مدارس کے حوالے سے ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جو ان اداروں کی ساکھ کو متاثر کر سکتے ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ مدارس اپنے داخلی نظام میں اصلاحات کریں اور شفافیت کو یقینی بنائیں۔
مدارس کی تاریخی حیثیت اور خدمات کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔ برصغیر میں مدارس نے مسلمانوں کی علمی، سماجی، اور سیاسی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا ہے۔ آج بھی لاکھوں طلبہ مدارس سے وابستہ ہیں اور یہ ادارے دینی علوم کی نشر و اشاعت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ لیکن بعض اندرونی مسائل اور خارجی دباؤ کی بنا پر ان مدارس کو چیلنجز کا سامنا ہے۔
حالیہ دنوں میں کچھ ایسے واقعات پیش آئے ہیں جن میں مدارس پر انتظامی بے ضابطگیوں اور غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ ان الزامات کو صرف پروپیگنڈا قرار دے کر مسترد کرنا کافی نہیں بلکہ ان کا سنجیدہ تجزیہ کرنا ضروری ہے۔ اگر کہیں اصلاح کی ضرورت ہو تو اسے خوش دلی سے اپنانا چاہیے۔
یہ مسئلہ محض ایک ادارے تک محدود نہیں، بلکہ ایک اجتماعی ذمہ داری ہے۔ مدارس کے منتظمین کو شرعی اصولوں پر سختی سے کاربند رہتے ہوئے جدید انتظامی معیارات اپنانے ہوں گے، تاکہ طلبہ و طالبات کو ایک محفوظ اور مثبت تعلیمی ماحول فراہم کیا جا سکے۔ اگر ہم نے اس موقع پر اصلاح کے تقاضے پورے نہ کیے تو نہ صرف ہماری آنے والی نسلیں متاثر ہوں گی بلکہ دینی اداروں کا وقار اور اعتماد بھی مجروح ہوگا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم دینی درسگاہوں کی عظمت اور تقدس کو برقرار رکھتے ہوئے انہیں موجودہ دور کے چیلنجز کے مطابق مستحکم اور مؤثر بنائیں، تاکہ مدارس اپنی اصل روح کے مطابق دین و اخلاق کے حقیقی مراکز بنے رہیں اور ان کا فیض نسل در نسل جاری رہے۔
ایسے میں فتن دور میں مدارس عربیہ میں اصلاحات کی ضرورت پہلے سے زیادہ محسوس ہورہی ہے