
22؍اپریل کو پہلگام میں ہوئے وحشیانہ اور دہشت گردانہ حملے میں جوابی کارروائی کے طورپر 7 ؍مئی کو ہندوستانی فوج نے آپریشن سندور کے ذریعہ پاکستان میں موجود دہشت گردی کے مراکز اورفوجی تنصیبات پر زبردست حملے کیے۔ پورا ملک ہندوستانی فوج کے ساتھ کھڑا رہا۔ فوجیوں کے حوصلے بلند رکھنے ملک بھر میں تمام سیاسی پارٹیوں کی جانب سے ترنگا ریلیاں نکالی گئیں۔سرکاری ذرائع کے مطابق آپریشن سندور کے دوران پاکستان میں 100 سے زائد خطرناک دہشت گرد مارے گئے اور 21 شناخت شدہ دہشت گردی کے کیمپوں کو ختم کیا گیا ہے۔ ہندوستان میں تمام سیاسی پارٹیوں نے ملک کی سلامتی اور سا لمیت کے تحفظ کی ترجیحی ضرورت کے پیش نظر متحد ہوکر مرکزی حکومت کی ہدایت میں آپریشن سندور کی پرزور حمایت کی۔ ہماری سرحدوں پر دن رات ملک کی حفاظت کے لیے لڑنے والے ہمارے فوجی جوانوں کے آہنی عزائم اور استقلال کو خراج تحسین پیش کیا گیا ۔پاکستان کے ساتھ ہندوستانی فوج کی انتقامی کارروائی سے ملک کے تمام شہریوں کا اعتماد مضبوط ہوا۔ آپریشن سندور کے دوران ہندوستان کے بشمول سرحدی علاقوں کے پورے ملک میں جنگ زدہ ماحول سے بے چینی چھائی رہی ۔پاکستان کے دعوؤں کے باعث مرکزی حکومت نے تمام ریاستوں کو سکیورٹی انتظامات کے لیے الرٹ رہنے کے احکامات جاری کردیئے تھے ۔اب جب کہ ہندوستانی فوج پاکستان کے دہشت گردی کے مراکز پر حملے کررہی تھی اورجنگ کے آثار نظر آنے لگے تھے ، پاکستان نے پہلگام حملوں میں دہشت گردوں کی حمایت اور شمولیت سے لاتعلقی کا اعلان کیا ۔یہ بھی دعویٰ کیا کہ اگر پاکستان پر ہندوستانی فوج کا حملہ ہوا تو زبردست جوابی کارروائی ہوگی، مگر ہماری فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کے فوجی حملوں کو ہندوستان نے اپنے ڈرونز اور دیگر اسلحہ سے ناکام اور بے اثر کردیا ہے ۔ ایسا لگ رہا تھاکہ جنگ چھڑ جائے گی۔دونوں ممالک جن کے درمیان سفارتی تعلقات کشیدگی کا شکار رہے ہیں ۔اب جنگ کے باعث مزید حالات بگڑیں گے۔دونوں ممالک میں جنگ سے روایتی مشکلات اور نقصان ہوگا۔
DASTAK-168
آپریشن سندور کے دوران چین اورترکیہ نے پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا ۔ امریکہ نے یہ موقف اختیار کیا کہ وہ ہندو پاک کشیدگی کے دوران کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔ پھر اچانک 10؍مئی کو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ہندوستان پاکستان کے درمیان جاری فوجی کارروائی کے حوالے سے جنگ بندی کا اعلان کردیا ۔اورٹرمپ نے یہ بلند بانگ دعوے کیے کہ دونوں فریق ممالک کے ساتھ طویل مشاورت کے بعد جنگ بندی کے لیے انہیں راضی کرلیا گیا ہے ۔ ٹرمپ کے اعلان کے بعد دونوں فریقین نے اس کی تصدیق کی۔جنگ بندی کے اعلان کے بعد بھی دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر الزام لگایا کہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی ہے ۔فریق ممالک کے فوجی سربراہوں کے درمیان باہمی امن گفتگو کے بعد جنگ بندی بحال ہوگئی ہے۔مگر دونوں ممالک میں اب بھی ماحول کی سنگینی کا احساس برابر محسوس کیا جارہا ہے ۔تقریباً 78 سال سے ہندوستان کی سفارتی پالیسی رہی ہے کہ پاکستان کے ساتھ کسی بھی تنازع یا جنگ کے معاملے میں وہ کسی تیسرے ملک کی مداخلت سے انکارکرتا رہا ہے۔اپنے ملک کے داخلی وخارجی معاملات خود ہندوستان اپنے بل بوتے پر سفارتی یا پھر فوجی کارروائی سے سلجھاتا رہا- مگر مودی حکومت کا اچانک امریکہ کو جنگ بندی کیلئے ثالثی کردار ادا کرنے پر راضی ہوجانا نہ صرف حیرت انگیز اقدام لگا بلکہ کئی سوالات کو اس نے جنم دیا ہے۔سب سے اہم یہ کہ آخرکار اپنی تمام فوجی صلاحیت اورجنگی منصوبہ بندی کی قابلیت کے باوجود جب پاکستان سے ہندوستان اپنا لوہا لے رہاتھا ۔پھر اچانک امریکی مداخلت کو کس طرح دونوں فریق ممالک نے منظورکرلیا ۔کیا امریکہ نے اپنے دباؤ سے دونوں ممالک کو کسی طرح راضی کرلیا ۔اس پر ملک میں نہ صرف اپوزیشن میں شامل سیاسی پارٹیاں مودی حکومت سے سوال کررہی ہیں بلکہ ہندوستانی فوج کے کئی سابق سربراہان نے بھی مایوسی کا اظہارکیا ہے۔ امریکی صدر کی مداخلت کو ہندوستانی سفارتی صلاحیتوں کی ناکامی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
؍12,مئی کو قوم کے نام اپنے 22منٹ کے خصوصی خطاب میں وزیراعظم نے اعادہ کیا کہ آپریشن سندور کی کامیابی اور پہلگام دہشت گردانہ حملہ میں، جو سیاح لوگ مارے گئے، ان کے پس ماندگان کے ماتھے سے مٹنے والے سندور کا ہندوستانی فوج نے معقول انتقام لیا ہے۔ملک کی بری، بحری اورفضائیہ فوج نے وطن کی سلامتی اور تحفظ کے لیے ،جس جانبازی کے ساتھ پاکستان پر حملہ کیا ،اس کی ستائش کرتے ہوئے مودی نے کہاکہ پورا ملک فوج کے ساتھ کھڑا تھا ۔جنگ بندی محض ایک وقفہ ہے ۔اگر پھر سے کوئی دہشت گردانہ کارروائی کے آثار نظر آئے تو جوابی کارروائی کے لیے ہندوستان تیار ہے ۔کہا گیا ہے کہ پاکستان کی جنگ بندی کے لیے رضامندی کی گذارش پر جنگ بندی عمل میں آئی ہے ۔ٹرمپ کی مداخلت اورثالثی کردار پر مودی نے کچھ بھی نہیں کہا۔جب کہ ٹرمپ نے اس دوران امریکہ میں اپنے ایک بیان میں دوبارہ جنگ بندی کے لیے اپنا کارنامہ قرار دیا ۔اور یہ بھی بتایا کہ دونوں ممالک کو امریکہ کی جانب سے تنبیہ دی گئی تھی کہ جنگ بندی کی گزارش تسلیم نہیں کی گئی تو امریکہ اپنے تجارتی تعلقات ختم کرلے گا۔ٹرمپ نے جاری جنگ بندی کے لیے پورا کریڈٹ اپنے نام کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہندوستان پاکستان دونوں ممالک ایک بڑی نیوکلیر جنگ سے محفوظ ہوگئے ،ورنہ لاکھوں کروڑوں جانیں ہلاک ہوجاتیں۔ہندوستان کی وزارت خارجہ نے ٹرمپ کے تجارتی تعلقات بائیکاٹ کے نکتہ پر کہا ہے کہ یہ معاملہ گفتگو شامل نہیں تھا۔بہرحال ہندوستان کے خارجی اوردفاعی معاملات میں امریکہ کی مداخلت کا اب تک مودی حکومت نے کسی بھی طرح کا دفاع نہیں کیا ہے -جنگ کے بادل دونوں ممالک کے درمیان منڈلارہے تھے۔جنگ تو ٹل گئی۔ مگر دونوں ممالک کے درمیان انسداد دہشت گردی، کشمیر تنازعہ اور آبی وسائل کی فراہمی پر سفارتی مشاورت کی باتیں ہورہی ہیں ۔ہندوستان نے کشمیر تنازع پر گفتگو کو خارج کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر پر بات چیت کا اشارہ دیا ہے ۔مگر شرط یہ رکھی گئی ہے کہ دہشت گردانہ عناصر کی حمایت سے پاکستان باز آئے۔ جنگ بندی کے لئے اپنے نام پورا کریڈٹ لیتے ہوئے ٹرمپ نے یہ بھی اعلان کردیا ہے کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان ’’ہزاروں‘‘ سالوں سے چل رہے کشمیر تنازع پر گفتگو کے لیے ثالثی کردار ادا کرنے پر امریکہ تیار ہے ۔سوال یہ ہے کہ کشمیر کا معاملہ کب سے ہزاروں سال پرانا ہوگیا ۔ جب کہ یہ تنازعات نے ملک کی تقسیم کے دوران جنم لیا تھا۔ ہندوستانی وزیراعظم مودی نے برملا کہا ہے کہ جنگ کی کسی بھی صورت میں ہندوستانی فوج اپنی برتری سے پاکستان کو شکست سے دورچار کرسکتی ہے ۔ملک میں اپوزیشن مودی حکومت سے یہ مدلل مطالبہ کررہا ہے کہ 22 ؍اپریل کے پہلگام حملے ، آپریشن سندور اور امریکی مداخلت اورجنگ بندی پر بحث کے لیے پارلیمان کا خصوصی اجلاس کا انعقاد کرے، مگر ان تمام معاملات اور کشیدگی کے دوران پہلگام حملے سے پہلے اور حملے کے بعد متاثرہ سیاحوں نے، جس طرح مقامی کشمیریوں کی امن پسندی، ان کی مہمان نوازی، حسن اخلاق کا تذکرہ کیا اس پہلو پر بہت کم توجہ دی گئی ہے۔٭٭٭
azamshahid11786@gmail.com